جلیانوالہ باغ قتل عام.

امرتسر مشرقی پنجاب، بھارت میں سکھوں کے عہد کا ایک باغ جہاں 13 اپریل، 1919ء کو انگریز فوج نے سینکڑوں حریت پسندوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس قتل عام کا باعث رسوائے زمانہ رولٹ ایکٹ مجریہ 21 مارچ، 1919ء تھا، جس کے ذریعے ہندوستانیوں کی رہی سہی آزادی بھی سلب کر لی گئی تھی۔ تمام ملک میں مظاہروں اور ہڑتالوں کے ذریعے اس ایکٹ کے خلاف احتجاج کیا جا رہا تھا 
اور امرتسر میں بھی بغاوت کی سی حالت تھی۔
جلیانوالہ باغ کا قتلِ عام، جسے امرتسر قتلِ عام بھی کہا جاتا ہے، 13 اپریل، 1919ء کو واقع ہوا جب پرامن احتجاجی مظاہرے پر برطانوی ہندوستانی فوج نے جنرل ڈائر کے احکامات پر گولیاں برسا دیں۔ اس مظاہرے میںبیساکھی کے شرکا بھی شامل تھے جو پنجاب کے ضلع امرتسر میں جلیانوالہ باغ میں جمع ہوئے تھے۔ یہ افراد بیساکھی کے میلے میں شریک ہوئے تھے جو پنجابیوں کا ثقافتی اور مذہبی اہمیت کا تہوار ہے۔ بیساکھی کے شرکابیرون شہر سے آئے تھے اور انہیں علم نہیں تھا کہ شہر میں مارشل لا نافذ ہے۔

جنرل ڈائر
پانچ بج کر پندرہ منٹ پر جنرل ڈائر نے پچاس فوجیوں اور دو آرمرڈ گاڑیوں کے ساتھ وہاں پہنچ کر کسی اشتعال کے بغیر مجمع پر فائرنگ کا حکم دیا۔ اس حکم پر عمل ہوا اور چند منٹوں میں سینکڑوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
باغ کا رقبہ 6 سے 7 ایکڑ جتنا تھا اور اس کے پانچ دروازے تھے۔ ڈائر کے حکم پر فوجیوں نے مجمعے پر دس منٹ گولیاں برسائیں اور زیادہ تر گولیوں کا رخ انہی دروازوں سے نکلنے والے لوگوں کی جانب تھا۔ برطانوی حکومت نے ہلاک شدگان کی تعداد 379 جبکہ زخمیوں کی تعداد 1٬200 بتائی۔ دیگر ذرائع نے ہلاک شدگان کی کل تعداد 1٬000 سے زیادہ بتائی۔ اس ظلم نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا اور برطانوی اقتدار سے ان کا بھروسا اٹھ گیا۔ ناقص ابتدائی تفتیش کے بعد ہاؤس آف لارڈز میں ڈائر کی توصیف نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور تحریکِ عدم تعاون شرو ع ہو گئی۔
اتوار 13اپریل، 1919ء کو ڈائر کو بغاوت کا پتہ چلا تو اس نے ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی لگا دی مگر لوگوں نے اس پر زیادہ کان نہ دھرے۔ چونکہ بیساکھی کا دن سکھ مذہب کے لیے مذہبی اہمیت رکھتا ہے، اس لیے آس پاس کے دیہاتوں کے لوگ باغ میں جمع ہو گئے تھے۔ جب ڈائر کو باغ میں ہونے والے اجتماع کا پتہ چلا تو اس نے فوراً پچاس گورکھے فوجی اپنے ساتھ لیے اور باغ کے کنارے ایک اونچی جگہ انہیں تعینات کر کے مجمعے پر گولی چلانے کا حکم دیا۔ دس منٹ تک گولیاں چلتی رہیں حتیٰ کہ گولیاں تقریباً ختم ہو گئیں۔ ڈائر نے بیان دیا کہ کل 1650 گولیاں چلائی گئیں۔ شاید یہ عدد فوجیوں کی طرف سے جمع کیے گئے گولیوں کے خولوں کی گنتی سے آیا ہوگا۔ برطانوی ہندوستانی اہلکاروں کے مطابق 379 کو مردہ اور تقریباً 1٬100 کو زخمی قرار دیا گیا۔ انڈین نیشنل کانگریس کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد اندازہً 1٬000 اور زخمیوں کی تعداد 1٬500 کے لگ بھگ تھی۔
شروع میں برطانیہ کے قدامت پسندوں نے ڈائر کی بہت تعریف کی مگر ایوانِ نمائندگان نے جولائی 1920ء تک اس کو منظرِ عام سے ہٹا کر ریٹائر کر دیا۔ برطانیہ میں برطانوی سلطنت کے حامیوں جیسا کہ ہاؤس آف لارڈز میں ڈائر کو ہیرو سمجھا جاتا تھا مگر جمہوری اداروں جیسا کہ ایوانِ نمائندگان میں اسے ناپسند کیا جاتا تھا اور اس کے خلاف دو بار ووٹ دیا۔ اس قتلِ عام کے بعد فوجی کردار کے بارے نئے سرے سے فیصلہ کیا گیا کہ اسے کم از کم طاقت تک محدود کر دینا چاہیے اور فوج نے مجمع کو قابو کرنے کے لیے نئی مشقیں اور نئے طریقوں کو اپنایا۔ بعض مؤرخین کے مطابق اس واقعے نے برطانوی اقتدار کی قسمت پر مہر ثبت کر دی جبکہ دیگر کا خیال ہے کہ پہلی جنگِ عظیم میں ہندوستان کی شمولیت کی وجہ سے خود مختاری نوشتہ دیوار بن چکی تھی۔

Comments

Popular Posts